پتھر کا بچہ – ایک سچی مگر حیران کن کہانی
کبھی کبھی حقیقت افسانے سے بھی زیادہ عجیب ہو سکتی ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ "لی تھوپیڈیون" یعنی "پتھر کا بچہ" کا ہے۔ یہ کوئی جادو یا فلمی سین نہیں بلکہ ایک سچ ہے، جس پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کہانی میں آپ جانیں گے کہ کیسے ایک عورت کے پیٹ میں مر چکا بچہ سالوں تک زندہ نہ سہی، مگر محفوظ حالت میں، پتھر کی شکل اختیار کر گیا۔
لی تھوپیڈیون کیا ہے؟
"لی تھوپیڈیون" ایک نایاب طبی حالت ہے۔ جب عورت کا حمل رحم کے بجائے پیٹ میں کہیں لگ جائے (جسے Abdominal Pregnancy کہتے ہیں) اور کسی وجہ سے بچہ مر جائے، تو اگر جسم اسے جذب نہ کر سکے، تو وہ جنین کیلشیم کی تہوں میں لپٹ جاتا ہے۔ جسم ایسا اس لیے کرتا ہے تاکہ وہ مرے ہوئے بچے سے انفیکشن نہ پھیل جائے۔ وقت کے ساتھ وہ بچہ ایک پتھریلا ماس بن جاتا ہے، اور یوں وہ "پتھر کا بچہ" بن جاتا ہے۔
پہلا حیران کن کیس – 40 سال بعد انکشاف
افریقہ کی ایک 70 سالہ عورت کو پیٹ میں کبھی کبھی ہلکا سا درد محسوس ہوتا تھا، مگر وہ کبھی ڈاکٹر کے پاس نہ گئی۔ ایک دن وہ چیک اپ کے لیے ہسپتال گئی، جہاں ایکسرے کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں ایک مکمل جنین موجود ہے – مگر وہ زندہ نہیں تھا۔ وہ بچہ دراصل 40 سال پہلے ایک ناکام حمل کے دوران مر گیا تھا، اور جسم نے اسے کیلشیم کی تہہ میں بند کر دیا تھا۔ وہ خاتون ایک "پتھر کے بچے" کے ساتھ چالیس سال تک زندہ رہیں!
دوسرا کیس – جب درد نے راز کھولا
ایک 50 سالہ خاتون کئی سالوں سے پیٹ کے درد، بدہضمی، اور کمزوری کی شکایت کر رہی تھیں۔ ان کے بقول تقریباً 15 سال پہلے حمل ضائع ہو گیا تھا۔ جب CT اسکین کیا گیا تو پیٹ میں ایک پتھریلا ماس نظر آیا۔ جب آپریشن کیا گیا تو پتا چلا کہ وہ دراصل ایک مکمل بچہ تھا، جو مرنے کے بعد جسم میں پتھر بن چکا تھا۔
علامات کیا ہو سکتی ہیں؟
اکثر مریضہ کو کوئی علامت نہیں ہوتی۔ لیکن بعض اوقات درج ذیل علامات ظاہر ہو سکتی ہیں:
- پیٹ میں سختی یا گانٹھ محسوس ہونا
- ہلکا یا مسلسل درد
- قبض، بدہضمی، یا کھانے میں دقت
- بار بار حمل نہ ٹھہرنا (بانجھ پن)
تشخیص کیسے ہوتی ہے؟
اس حالت کی تشخیص عام طور پر اتفاقیہ طور پر ہوتی ہے، جیسے کہ ایکسرے، الٹراساؤنڈ یا CT اسکین کروانے پر۔ اگر جسم میں کیلسیفائیڈ ماس موجود ہو، جس میں جنینی ہڈیاں نظر آئیں، تو شک ہوتا ہے کہ یہ لی تھوپیڈیون ہو سکتا ہے۔
علاج کیا ہے؟
اگر مریضہ کو کوئی تکلیف نہ ہو تو بعض اوقات ڈاکٹرز علاج نہیں کرتے اور صرف نگرانی کرتے ہیں۔ لیکن اگر ماس دوسرے اعضا پر دباؤ ڈال رہا ہو یا درد دے رہا ہو، تو پھر آپریشن کر کے پتھر کے بچے کو نکالا جاتا ہے۔ ہر کیس الگ ہوتا ہے، اس لیے علاج بھی اسی حساب سے کیا جاتا ہے۔
یہ کیوں ہوتا ہے؟
یہ عموماً ان علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں طبی سہولیات کم ہوں، خواتین بروقت علاج نہیں کرواتیں یا حمل کے دوران چیک اپ نہیں ہوتا۔ بعض اوقات عورتوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا حمل پیٹ میں ہے اور مر چکا ہے۔
کیا یہ خطرناک ہے؟
جی ہاں، اگر وقت پر پتہ نہ چلے تو یہ گردے، آنتوں، مثانے یا دوسرے اہم اعضا پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ بعض کیسز میں آنتیں بند ہو سکتی ہیں یا انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اگر پیٹ میں کوئی گانٹھ یا دیرینہ درد ہو، تو فوری معائنہ ضروری ہے۔
آخری بات
"پتھر کا بچہ" ایک حیران کن، مگر سچ پر مبنی طبی حالت ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ انسانی جسم کتنا عجیب اور حیرت انگیز ہے۔ جب وہ کسی خطرے کو ختم نہیں کر سکتا، تو اسے محفوظ کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ لی تھوپیڈیون ایک ایسا ہی مظہر ہے – جہاں زندگی تو رک گئی، مگر جسم نے موت کو بھی سنبھال کر رکھا۔
یہ کہانی طبی دنیا کی ایک خاموش چیخ ہے، جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہر درد کے پیچھے ایک کہانی چھپی ہوتی ہے۔
0 comments:
Post a Comment