📰 ستائیسویں آئینی ترمیم — اصلاح یا اقتدار کی نیا روپ؟
پاکستان کی آئینی تاریخ میں ہر ترمیم کو ہمیشہ “اصلاح” کے نام پر متعارف کروایا گیا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ اکثر تبدیلیاں طاقت کے توازن کو بدلنے کے لیے کی جاتی رہیں۔ ستائیسویں آئینی ترمیم بھی اسی روایت کی ایک تازہ مثال بنتی جا رہی ہے۔
بظاہر اس ترمیم کا مقصد ریاستی اداروں میں “نظم و ضبط” لانا اور “آئینی خلا” پر کرنا بتایا جا رہا ہے، مگر گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ آئینی اصلاح نہیں، بلکہ اختیارات کے ازسرنو قبضے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔
⚖️ عدلیہ کی تقسیم — انصاف یا دباؤ کی نئی شکل؟
ترمیم کے تحت “وفاقی آئینی عدالت” کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ حکومتی مؤقف ہے کہ اس عدالت سے سپریم کورٹ کا بوجھ کم ہو گا، لیکن قانونی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس سے عدلیہ دو حصوں میں بٹ جائے گی، اور حکومت کو ججوں کی تقرری اور تبادلے پر بالواسطہ اثر مل جائے گا۔
اگر عدلیہ کی خودمختاری کمزور ہوئی، تو انصاف کی رفتار تو بڑھ جائے گی، مگر انصاف کی آزادی سست پڑ جائے گی — اور یہ سودا پاکستان کے جمہوری سفر کے لیے خطرناک ہے۔
🪖 فوجی ڈھانچے میں تبدیلی — استحکام یا بالا دستی؟
آرمی چیف کے لیے “چیف آف ڈیفنس فورسز” کا نیا عہدہ اور پانچ ستارہ رینک کی تجویز ظاہر کرتی ہے کہ عسکری ادارہ اب اپنی غیر تحریری طاقت کو تحریری حیثیت دینا چاہتا ہے۔ یہ ایک علامتی نہیں، بلکہ انتہائی عملی قدم ہے — جو فوجی قیادت کو آئینی طور پر مزید مضبوط کر دے گا۔
یہ کہنا درست ہے کہ قومی دفاع میں تسلسل ضروری ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طاقت جب قانون سے اوپر چلی جائے تو وہ قوم کی خدمت کے بجائے خود “قانون” بن جاتی ہے۔
🏛️ صوبوں کے اختیارات — خودمختاری کا الٹا سفر
18ویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان پہلی بار صوبائی خودمختاری کی طرف بڑھا تھا۔ اب ستائیسویں ترمیم اس سفر کو الٹا موڑنے کا عندیہ دیتی ہے۔ تعلیم، آبادی اور منصوبہ بندی جیسے معاملات دوبارہ وفاق کے کنٹرول میں دینے کا مطلب یہ ہے کہ صوبوں کے فیصلے اب “اختیار” نہیں بلکہ “ہدایت” کے تابع ہوں گے۔
وفاقی حکومت کے لیے یہ انتظامی سہولت ہو سکتی ہے، مگر جمہوریت کے لیے یہ مرکزیت کا زہر ثابت ہو گا۔
🗳️ الیکشن کمیشن — سہولت یا اثر؟
الیکشن کمیشن کی تقرری کے طریقہ کار میں نرمی بظاہر ایک مثبت قدم لگتا ہے، لیکن اگر یہی سہولت سیاسی مداخلت کے لیے استعمال ہوئی، تو انتخابی ادارہ بھی انتظامی فرمانبرداری کا حصہ بن جائے گا۔
👥 عوام کہاں ہیں؟
سب سے اہم سوال یہی ہے — کیا اس ترمیم سے عام شہری کو کوئی براہِ راست فائدہ ہو گا؟ جواب سادہ ہے: نہیں۔
یہ ترمیم عوامی مفاد یا معاشی استحکام کے لیے نہیں، بلکہ طاقت رکھنے والے طبقات کے ادارہ جاتی مفاد کے لیے بن رہی ہے۔ نہ روزگار بڑھے گا، نہ انصاف سستا ہو گا، نہ عوام کی آواز فیصلوں میں سنی جائے گی۔
🔴 نتیجہ — آئینی لباس میں طاقت کا کھیل
اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو ستائیسویں آئینی ترمیم دراصل ریاست کو منظم کرنے کی کوشش کم اور طاقت کو قانونی تحفظ دینے کی تدبیر زیادہ ہے۔
اس سے بلاشبہ فیصلہ سازی تیز ہو جائے گی، لیکن شفافیت، صوبائی خودمختاری، اور ادارہ جاتی توازن کی قیمت پر۔ یعنی یہ ترمیم ریاست کو مضبوط نہیں بلکہ اختیار کو محدود ہاتھوں میں مرکوز کرے گی۔
0 comments:
Post a Comment